میڈیا رپورٹس کے مطابق سائفر کیس میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، سماعت قائم مقام چیف جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ کیا تفتیشی افسر نے حساس دستاویز پر مبنی ہدایت نامہ پڑھا ہے؟ تفتیشی رپورٹ میں کیا لکھا ہے سائفر کب تک واپس کرنا لازمی ہے؟ نا پراسیکیوٹر کو سمجھ آ رہی ہے نہ تفتیشی افسر کو تو انکوائری میں کیا سامنے آیا ہے؟۔
قائمقام چیف جسٹس سردار طارق نے کیا گواہان کے بیانات حلف پر ہیں؟ ریکارڈ کے مطابق گواہ کا بیان حلف پر نہیں ہے، قائمقام چیف جسٹس نے تنفیشی افسر سے پوچھا کہ کیا اعظم خان کی گمشدگی کی تحقیقات کیں؟۔
جسٹس سردار طارق نے سوال اٹھایا کہ شہباز شریف نے کیوں نہیں کہا کہ سائفر گم گیاہے؟ شہباز شریف نے کس دستاویز پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کیا؟
جس پر پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں سائفرپیش ہوا تھا، ڈی کوڈ کرنے کے بعد والی کاپی سلامتی کمیٹی میں پیش ہوئی تھی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سائفر کیس میں سزائے موت کی دفعات بظاہر مفروضے پر ہیں، سائفر معاملے پر غیر ملکی قوت کو کیسے فائدہ پہنچا؟۔
جسٹس منصور نے سوال اٹھائے کہ پاک امریکا تعلقات خراب ہوئے کسی اور کا فائدہ ہوا یہ تفتیش کیسے ہوئی؟ تعلقات خراب کرنے کا تو ایف آئی آر میں ذکر ہی نہیں، کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے باہر نکالنے سے ملک کی جگ ہنسائی نہیں ہوتی؟ کیا وزرائے اعظم کو وقت سے پہلے ہٹانے پر بھی آفیشل سیکریٹ ایکٹ لگے گا؟ انڈیا میں ہماری جگ ہنسائی تو کسی بھی وجہ سے ہوسکتی ہے اس پر کیا کرینگے؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو دستاویز آپ دکھا رہے ہیں اسکے مطابق تو غیر ملکی طاقت کا نقصان ہوا ہے، کیا حکومت 1970 اور 1977 والے حالات چاہتی ہے؟ کیا نگراں حکومت نے ضمانت کی مخالفت کرنے کی ہدایت کی ہے؟۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر دور میں سیاسی رہنماؤں کیساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ سابق وزیراعظم کے جیل سے باہر آنے سے کیا نقصان ہوگا؟ اس وقت سوال عام انتخابات کا ہے، اس وقت بانی پی ٹی آئی نہیں عوام کے حقوق کا معاملہ ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے، سابق وزیر اعظم پر جرم ثابت نہیں ہوا وہ معصوم ہیں۔