بطور وزیراعظم اور وزیر خارجہ دونوں مجرمان نے اپنے عہد کی خلاف ورزی کی، جج ابو الحسنات
بانی پی ٹی آئی عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کیخلاف سائفرکیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا جس کے مطابق سابق وزیر اعظم کو مجموعی طور پر 24 سال جبکہ شاہ محمود کو 20 سال کی سزا سنائی گئی ہے ، بانی پی ٹی آئی 4 دفعات جبکہ شاہ محمود قریشی 2 دفعات کے تحت مجرم قرار پائے ہیں۔
جمعرات کے روز سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذولقرنین کی جانب سے 77 صفحات پر مشتمل کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے سائفر وزارت خارجہ کو واپس نہیں بھیجا۔
تفصیلی فیصلے کے مطابق سائفر کے معاملے سے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات پر اثر پڑا اور دشمنوں کو فائدہ ہوا۔
عدالت کی جانب سے سائفر کیس کے تفصیلی فیصلے میں 20 فائنڈنگز دی گئی ہیں جن میں سائفر، چشم دید گواہ اور سیکرٹ دستاویزات کی اہمیت شامل ہے۔
عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ دونوں مجرمان کا دوران ٹرائل عدالت کے سامنے رویہ مدنظر رکھا گیا، دونوں مجرمان نے خودساختہ پریشانیاں بنائیں ، سائفر کیس 17 ماہ کی تحقیقات کے بعد دائر کیا گیا تھا، 17 ماہ کی تحقیقات سے ثابت ہوا کہ مقدمہ تاخیر سے دائر نہیں کیا گیا۔
فیصلے کے مطابق بطور وزیراعظم بانی پی ٹی آئی کی ذمے داری تھی کہ سائفر واپس کرتے، وزارت خارجہ وزیراعظم سے سائفر واپس نہیں مانگ سکتی تھی، اب تک بانی پی ٹی آئی نے سائفر واپس نہیں کیا ، کیس سائفر سے متعلق ہے جو وزارت خارجہ کو واشنگٹن سے موصول ہوا، سائفر بہت حساس دستاویز ہے ، امریکا پاکستان کا ایک دوسرے پر بھروسہ بھی جڑا ہے۔
کیس کی سماعت کے دوران 25 گواہان کا بیان قلمبند کیا گیا ، وکلاء صفائی غیرسنجیدہ دکھائی دیئے، 27 جنوری کو وکلا صفائی غیر حاضر تھے جبکہ سرکاری وکیل موجود تھا، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود نے سرکاری وکیل سے بد تمیزی کی ، فائلیں پھینکیں۔
عدالت نے کہا کہ وکلاء صفائی عثمان گل اور علی بخاری کے آنے پر جرح کی تیاری کے لئے وقت دیا، جب جرح کا کہا تو وکلاء صفائی نے انکار کر دیا، پھر سرکاری وکیل نے جرح کی، فیئر ٹرائل کا حق چالاک ملزم کے لئے نہیں ہوتا، سائفر کو اپنے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا جس کا اثر پڑا، بطور وزیراعظم اور وزیر خارجہ دونوں نے اپنے عہد کی خلاف ورزی کی۔
فیصلے کے مطابق پاکستان اور امریکا کے تعلق کو نقصان پہنچا، بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے جان بوجھ کر جھوٹ بولا۔
تکلیف دہ یہ ہے کہ ملزمان نے کیس کی پیروی کے لئے کئی وکلا تبدیل کئے، ملزمان نے تاخیری حربے اپنائے اور کیس کی کارروائی کو مذاق سمجھا، دونوں ملزمان نے کیس میں تاخیر کے لئے چھپن چھپائی کا کھیل کھیلا، ملزمان نے سماعت کے دوران نامناسب رویہ روا رکھا، وکلا نے قانون کا مذاق اڑایا۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ اعظم خان کا بیان سچائی پر مبنی تھا جس نے پراسیکیوشن کے دلائل کو مضبوط کیا، سائفر کے ذریعے دیگر ممالک سے رابطے کے نظام کی سالمیت پر سمجھوتہ کیا گیا، دونوں ملزمان آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مجرم ثابت ہوتے ہیں۔