اسلام آباد : ججوں کے خط پر ازخود نوٹس کیس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فل کورٹ بنانے کا عندیہ دے دیا اور کہا روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے اس کو نمٹائیں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کےججز کے خط پر سپریم کورٹ میں ازخود نوٹس پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
سماعت کے آغاز میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میں کسی کے دباؤ میں نہیں آتا ہوں،فیصلوں کو دیکھ کر ہرآدمی اپنی رائے دیتا ہے ، جو وکیل کہے کہ ازخود نوٹس لیا جائے اسے وکالت چھوڑ دینی چاہیے، اکثر دیکھتا ہوں کہ وکیل ازخود نوٹس کے مطالبے کر رہے ہیں ، وکیلوں کے نمائندے موجود ہیں تو آجائیں سامنے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ عدالتوں کو مچھلی بازار نہیں بنانا چاہیے، پاکستان میں درجنوں بار ایسوسی ایشنز ہیں ہم سپریم کورٹ سے ہیں، ہمارا تعلق سپریم کورٹ بار سے ہوتا ہے ، بار کونسل کے لوگ بھی منتخب لوگ ہیں، جمہوریت کا تقاضا ہے کہ اس کو بھی مان لیں جو آپ کا مخالف ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے مزید ریمارکس میں کہا کہ میں کسی وکیل سے انفرادی طورپر ملتاہی نہیں ہوں،پاکستان بار اور سپریم کورٹ بار کے نمائندوں سے بات ہوئی ہے، سماعت کا ابھی آغاز کیا ہے سب چیزوں کو دیکھیں گے۔
اٹارنی جنرل اور پی ٹی آئی وکیل حامد خان روسٹرم پر آئے، وکیل حامد خان نے کہا کہ میں نے کل ایک درخواست دائر کی ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ سے بہتر کون قانون جانتا ہے، آپکی درخواست ابھی ہمارے پاس نہیں آئی، جب درخواست آجائے تو انتظامی کمیٹی اس پر فیصلہ کرتی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے بعد چیف جسٹس اکیلے کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔
حامد خان نے مزید کہا کہ ہمیں بھی کیس میں سناجائے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ حامد خان صاحب آپ سینئر وکیل ہیں، اب پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی طےکرتی ہے، کمیٹی ناعدالت کا اختیار استعمال کر سکتی ہے نہ عدالت کمیٹی کا، چیف جسٹس
ججز کو موصول ہونے والے خطوں پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 26تاریخ کو اسلام آبادہائیکورٹ کے ججز کا خط موصول ہوا، اسی دن افطاری کے بعد چیف جسٹس سمیت تمام ججز سے ملاقات ہوئی، اس ڈھائی گھنٹےکی ملاقات میں سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ بھی موجود تھے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے جوڈیشری کی آزادی کے معاملے پر زیرو ٹالرنس ہے ،ہمیں اپنا کام تو کرنے دیں ،یہ دیکھنا ہے کس رفتار سے کام ہورہاہے، سماعت کا آغاز کیسے کریں، پہلے پریس ریلیز پڑھ لیتے ہیں، اب وہ زمانے گئے کہ چیف جسٹس کی مرضی ہوتی ہے، کیسز فکس کرنے کیلئے کمیٹی تشکیل دی ہے۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ میرے آنے کے بعد 18دسمبر 2023کو فل کورٹ کی پہلی میٹنگ کی ، اس سے قبل 4 سال فل کورٹ میٹنگ نہیں ہوئی ،کہاں تھے سارے وکیل ، ادارےکی اہمیت چیف جسٹس سے نہیں بلکہ تمام ججز سے ہوتی ہے، آزاد عدلیہ پر کوئی بھی حملہ ہوگا تو سب سے آگے میں کھڑاہوں گا، کسی کا کوئی اور ایجنڈا ہے تو صدر سپریم کورٹ بار بن جائےیا چیف جسٹس ، ہم کوئی دباؤ برداشت نہیں کرتے۔
چیف جسٹس پاکستان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بار اور پاکستان بار کونسل معاملے میں اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں، اس وقت وکلاکے جمہوری نمائندے وہی ہیں۔
وزیراعظم سے ملاقات کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم سے ملاقات انتظامی نوعیت کی تھی، آفیشل انتظامی میٹنگ کا درجہ دینا چاہتے تھے، وزیراعظم سے ملاقات جوڈیشل نوعیت کی نہ تھی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ سے رجوع کیا تو آپ نے اچھا کردار ادا کیا ، اب اس معاملے کی تحقیقات کون کرے یہ سب سے بڑا سوال ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے عدالتی فیصلہ ہائیکورٹ کے چھ ججز کو فائدہ پہنچا رہا ہے، ہائیکورٹ ججز نے خط میں لکھا کہ بہنوئی داماد وغیرہ پر دباؤ ڈالا گیا، خط میں یہ نہیں بتایا گیا کس نے براہ راست ججز پر دباؤ ڈالا،ہائیکورٹ ججز کے پاس توہین عدالت کا اختیار ہے وہ بھی استعمال ہوسکتا تھا، آئین پاکستان ججز کو توہین عدالت کا اختیار دیتا ہے، کسی اور عدالت کی توہین عدالت کی پاور میں استعمال نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس نے بتایا سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور میں ججز پر دباؤکا خط آیا، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نہ مجھ سے مشاورت کی نہ بتایا گیا، میرے سیکرٹری نے کہا ہائیکورٹ ججز آئے ہیں تو میں نے فوری ملاقات کی، میں ایگزیکٹو نہیں مگر پھر بھی ملاقات کر کے ججز کی بات سنی ، ججز توہین عدالت کا نوٹس کریں تو وضاحت کیلئے سب کو پیش ہونا ہوتا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ نے مرزا افتخار کی بات کی ، آپ نے کہا مرزا افتخار نے چیف جسٹس کو دھمکیاں دیں، کیا آپ نے یہ دیکھا کہ منطقی انجام تک پہنچا کہ نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل کا بھی کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایک ریفرنس دائر ہوا جس پراسوقت کےوزیراعظم نے تسلیم کیا ، اس وقت کے وزیراعظم نے تسلیم کہ غلطی تھی، اس پرکیا کارروائی ہو۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے غلطیاں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں، اب بھی ہو رہی ہیں، ہم نے اپنا احتساب کر کے دکھایا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت روسٹرم پر آئے اور کہا ہم انکوائری کمیشن کی حمایت کر رہے تھے، انکوائری کمیشن ہی بہترین طریقہ ہے ، کوئی انکوائری کمیشن سے بہتر راستہ نہیں بتا رہا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے سوال کیا ججز کے خط کے معاملے پر ایگزیکٹو نامزد ہیں، کیا خط کی انکوائری بھی ایگزیکٹو کریں گے ؟
جسٹس جمال مندوخیل نے دوران سماعت کہا کہ چیف جسٹس کیخلاف ریفرنس آیا تھا سابق وزیراعظم نے کہا غلطی ہوئی تھی، کیا یہ بھی عدالتی کام میں مداخلت نہیں تھی؟ اس پر حکومت نے کیا کیا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس فیض آباد دھرنا فیصلے کی وجہ سے آیا تھا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ ہم نے اپنا احتساب کیا حکومت بھی اپنی ذمہ داری پورے کرے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے شترمرغ کی طرح گردن زمین میں دبا کرنہیں بیٹھ سکتے، سول جج سے سپریم کورٹ تک اس معاملے پر پورا نظام بنایا ہوگا، عدلیہ میں مداخلت کا سلسلہ ہمیشہ کےلئے بند کرنا ہوگا۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے سرکار کو آڑے ہاتھوں لیا اور ریمارکس دیے سپریم کورٹ نے ضمانت دی اوراس فیصلے کو ہوا میں اڑے دیا گیا، چھہتر سال سے یہی ہورہا ہے، چھ ججوں کے خطوط بھی اسی طرز کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ، جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیے حکومت ایم پی اوکا سہارا لے کر عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کررہی ہے
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وزیراعظم کو عدالت میں نہیں بلاسکتے تو اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو آئینی استثنیٰ حاصل ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا آج آئین کی کتاب کھول کر لوگوں کو بتائیں، حکومت کو نوٹس دینگے تو اٹارنی جنرل یا سیکرٹری قانون آ جائیں گے، جب سے عہدے پر آیا ہوں کبھی عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کیا نہ کروں گا، کسی کو بے عزت کرنا ہمارا کام نہیں، پارلیمان، صدر اور حکومت سب کی عزت کرتے ہیں بدلے میں احترام چاہتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی فیصلوں پرعملدرآمد میں ذرا برابر بھی کوتاہی نہیں ہوئی تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو روک دیا اور کہا یہ بات نہ کریں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا موجودہ حکومت کی بات کر رہا ہوں۔
جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے لوگ شرط لگا رہے تھے کہ الیکشن نہیں ہونگے، الیکشن کا کیس سنا اور بارہ دن میں تاریخ کا اعلان ہوگیا، سب سے ان کا کام کرائیں گے، کسی کا کام خود نہیں کرینگے۔
چیف جسٹس فائز عیسیٰ کا کہنا تھا تصدق جیلانی پر ذاتی حملے کیے گئے، ایسا ماحول بنایا گیا کہ کون شریف آدمی خدمت کرے گا، ان کا نام تجویز کرکے افسوس اور شرمندگی ہوئی، اگر کسی وکیل کو اعتراض تھا تو متعلقہ فورم کو لکھتا، سرکار یا چیف جسٹس کو وجوہات لکھتا، شریف آدمی پر حملے ہوں تووہ تو چلا جائے گا، وہ کہے گا آپ سنبھالیں۔
سٹس اطہرمن اللہ نے اٹارنی جنرل سےمکالمے میں سخت ریمارکس دیے اور کہا باتیں سب کرتے ہیں کام کوئی کرنا نہیں چاہتا ، آپ کی حکومت کیس کو منطقی انجام تک لے گئی ہوتی توآپ بات کرتے ، سب جانتے ہیں کیا ہورہا ہے لیکن تاثر دے رہے ہیں جیسے کچھ ہو ہی نہیں رہا، یہاں کھڑے ہو کر کیسے بیان دے سکتے ہیں؟ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ بات میرے متعلق ہے، نہیں چاہتا تاثر جائے کہ دباؤڈال رہا ہوں۔
جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا مجھے بات پوری کرنےدیں ، اٹارنی جنرل آپ نے درست کہا سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی ہے، ججوں کا خط بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا سپریم کورٹ خودکسی مسڑ ایکس کو مداخلت کاذمہ دار قرار دے سکتی ہے؟ ہم کیسے تفتیش کریں گے کسی نہ کسی سے انکوائری کرانا ہوگی، تو صدر سپریم کورٹ بار نے بتایا اسی لئے سپریم کورٹ بار انکوائری کمیشن کی حامی تھی،کسی اور نے کوئی متبادل راستہ بھی نہیں بتایا۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ اسلام آباد میں دستیاب 7ججز کو بینچ میں شامل کیا، کچھ ججز لاہور اور کچھ کراچی میں موجود ہیں ، عید کے بعد تمام ججز دستیاب ہوسکتے ہیں، ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر فل کورٹ بنا دیں، فل کورٹ نہ بنانے کی وجہ ججز کی عدم دستیابی تھی، ججز کی دستیابی دیکھ کر 29یا 30 اپریل سےروزانہ سماعت کر سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے معاونت کے لئے تحریری معروضات مانگ لیں، چیف جسٹس نے کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرکے اس کو نمٹائیں گے، بعد ازاں کیس کی سماعت ملتوی دی گئی۔