سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا۔پاکستان تحریک انصاف کے مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا 70 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق اکثریتی فیصلہ اردو زبان میں بھی جاری کرنے کا حکم دے دیا، احکامات کے مطابق اردو ترجمے کو کیس ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے اور ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کیا جائے۔
تفصیلی فیصلے میں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ الیکشن میں سب سے بڑا سٹیک عوام کا ہوتا ہے، انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعات سے مختلف ہوتا ہے، یہ سمجھنے کی بہت کوشش کی کہ سیاسی جماعتوں کے نظام پر مبنی پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہو سکتے ہیں؟
فیصلے کے مطابق اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا گیا، پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا آزاد امیدوار بھی پی ٹی آئی کے امیدوار تھے اور ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے انہیں ووٹ دیا۔’الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے‘تحریری فیصلے میں بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے۔سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے، تحریک انصاف نے 2024 کے عام انتخابات قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیتی یا حاصل کیں ہیں۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ انتخابی نشان نہ دیناسیاسی جماعت کے انتخاب لڑنے کے قانونی و آئینی حق کو متاثر نہیں کرتا، آئین یا قانون سیاسی جماعت کو انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتا، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے، عوام کی خواہش اور جمہوریت کیلئے شفاف انتخابات ضروری ہیں۔
عدالت نے فیصلہ دیا کہ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے 80 میں سے 39ایم این ایز کو تحریک انصاف کا ظاہر کیا، الیکشن کمیشن کو کہا وہ باقی 41 ایم این ایز کے 15 روز کے اندر دستخط شدہ بیان لیں، الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹیفائی کرے۔
2 ججز کا فیصلے پر تحفظات
تفصیلی فیصلے میں 8 ججز نے 2 ججز کے اختلافی نوٹ پر تحفظات کا اظہار کر دیا، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر افغان نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیا تھا۔2 ججز کے تحفظات کے حوالے سے فیصلے میں بتایا گیا کہ جس انداز میں دو ججز نے اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کیا وہ مناسب نہیں۔