منگل کو ہونے والی پولنگ کے بعد امریکہ سمیت پوری دنیا میں امریکی صدرکے انتخاب کا بے تابی کے ساتھ انتظار کیا جا رہا ہے۔

مثال کے طور پر اگر ڈونلڈ ٹرمپ جیت جاتےہیں تو کملا ہیرس اپوزیشن لیڈر ہوں گی۔ ٹرمپ کی جیت کے بعد امریکہ کےایران کے ساتھ تعلقات مزید بگڑنے کا اندیشہ بتایا جاتا ہے جب کہ کملا انہیں متوازن رکھنے کی کوشش کریں گی۔چار دہائیاں پہلے ایران میں انقلاب کے بعد امریکہ کے ساتھ ایران کے تعلقات فوری طور پر دشمنی میں بدل گئے تھے۔ اس کا شروعات امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول اور اس کے ملازمین کو یرغمال بنانے سے ہوا اور یہ آج تک ختم نہیں ہو سکا۔

سنہ 1970ء کی دہائی کےاختتام سے لے کر اب تک جو مخمصہ اور بھاری میراث ہر ایک انتظامیہ کو منتقل ہوتی ہے وہ آج بھی باقی ہے۔

سنہ 2015 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لوزان میں ملاقات کرنے والوں کا خیال تھا کہ انہوں نے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن کے نام پر ایک معاہدے پر دستخط کر کے ایرانی جوہری پروگرام کا ڈرامہ ختم کر دیا ہے، لیکن تین سال بعد قلم کی ضرب سے ڈرامہ واپس آگیا۔ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں آئے تو انہوں نے معاہدہ منسوخ کردیا۔

کہا گیا کہ ٹرمپ نے اسرائیل میں اپنے دوست پر احسان کیا جو کبھی بھی معاہدے کا حامی نہیں تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایران نے کبھی بھی اس کا ارتکاب نہیں کیا اور اس معاہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سانس لینے کی جگہ حاصل کی اوراس نے ملیشیاؤں کو سپورٹ کرنا شروع کردیا تھا۔

اس کے بعد معاملات میں کشیدگی ہی چلتی رہی یہاں تک کہ بغداد میں ہوائی اڈے کی سڑک پر امریکی ڈرون کے ذریعے ایرانی رہ نما قاسم سلیمانی کی ہلاکت تک پہنچ گئی۔

دونوں امیدواروں میں سے ٹرمپ یقیناً تہران میں فیصلہ سازوں کے پسندیدہ نہیں ہیں۔

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق سابق صدر ایران کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ ان کی انتظامیہ کے دیگر ارکان بھی ہیں اور ایران نے بھی ان کی انتخابی مہم میں مداخلت کی کوشش کی ہے۔

ہاں تک ڈیموکریٹس کا تعلق ہے وہ یقیناً ایران میں حکومت کے دوست نہیں ہیں، لیکن ان کے ساتھ نمٹنا یا شاید ان پر قابو پانا ممکن ہے اور ایسا کچھ جو ٹرمپ کے ساتھ کبھی نہیں ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »