اسلام آباد : سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کےفیصلے سنانے کی اجازت دے دی اور کہا جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے کیس کی سماعت ہوئی ، 7 رکنی آئینی پینچ نے کیس کی سماعت کی، آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کے سوا دیگر تمام مقدمات کی سماعت مؤخر کر دی، جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ آج صرف فوجی عدالتوں والا مقدمہ ہی سنا جائے گا۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل جاری رکھے ، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پہلے اس پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں، کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے ہر شخص کو اس زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟
جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ پہلے بتائیں عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ یہ بھی مدنظر رکھیں آرمی ایکٹ 1973 کے آئین سے پہلے بنا تھا، جس پر وکیل وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں۔
جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے عدالتی فیصلے کواتنا بے توقیر تو نہ کریں کہ اسے خراب کہیں، تو خواجہ حارث نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میرے الفاظ قانونی نوعیت کے نہیں تھے۔
جسٹس محمد علی مظہر کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ کل بھی کہا تھا کہ 9مئی کے واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہاؤس کا ہی ہے، کیس صرف کور کمانڈر ہاؤس تک ہی رکھنا ہے تو یہ بھی بتا دیں۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ تمام تفصیلات آج صبح ہی موصول ہوئی ہیں، تفصیلات باضابطہ متفرق درخواست کے ذریعے جمع کراؤں گا، جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا جن دفعات کو کالعدم قرار دیا گیا ان کے تحت ٹرائل کیا کیا ہوگا؟ 9 مئی سے پہلے بھی تو کسی کوان دفعات کے تحت سزا ہوئی ہوگی۔
خواجہ حارث نے بتایا کہ عمومی طور پر کالعدم ہونےسے پہلے متعلقہ دفعات پر فیصلوں کو تحفظ ہوتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ یہ تو ان ملزمان کے ساتھ تعصب برتنے والی بات ہوگی، آرمی میں کوئی شخص زبردستی نہیں اپنی مرضی سے جاتا ہے، آرمی جوائن کرنیوالے کو علم ہوتا ہے کہ اس پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوگا، آرمی ایکٹ کے تحت بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے، آرمی ایکٹ بنایا ہی فوج کی ملازمت کےقواعد اور ڈسپلن کیلئے گیا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ بنیادی حقوق جرم کرنے پر ہی ختم ہوتے ہیں تو جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اپیل میں عدالت صرف اپیل کنندہ کی استدعا تک محدود رہے گی؟ کیا عدالت فیصلے کے دیگر پہلوؤں کا بھی جائزہ لے سکتی ہے؟ جسٹس امین الدین خان نے بھی ریمارکس دیئے فریقین اپنی معروضات تک محدودرہ سکتے ہیں عدالت نہیں۔
سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس کیس کی سماعت موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد تک ملتوی کردی اور 26 ویں ترمیم کا کیس جنوری کےدوسرے ہفتے میں سننے کا عندیہ دے دیا۔
جسٹس امین الدین نے کہا کہ سویلینز کےفوجی عدالتوں میں ٹرائل کامقدمہ امیدہےجنوری میں مکمل ہو جائے گا، پہلے ہفتے یہ کیس ختم ہوا تو26ویں ترمیم کا کیس جنوری کےدوسرے ہفتے سنیں گے، ہمارے پاس 26 ویں آئینی ترمیم سمیت بہت سے مقدمات پائپ لائن میں ہیں۔
جسٹس امین الدین خان نے خواجہ حارث سے استفسار کیا آپ مزید کتنا وقت لیں گے تو وکیل نے بتایا کہ ابھی دلائل میں مزید کچھ وقت لگ جائے گا، جس پر جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ موسم سرما کی تعطیلات کے بعد تک کیس ملتوی کردیتے ہیں۔
بعد ازاں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس کو فیصلہ سنانے کی اجازت دے دی، عدالت نے فوجی عدالتوں کو 85 ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دی۔
سپریم کورٹ کا کہنا تھا کہ جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے، فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمے کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔
عدالت نے مزید کہا کہ جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر رہا کیا جائے اور جن ملزمان کو رہا نہیں کیا جا سکتا ، انہیں سزا سنانے پر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔