سنہ 2001 میں جب نائین الیون حملوں کے بعد میں نے بی بی سی کے لیے گلوبل سکیورٹی کے نامہ نگار کے طور پر کام کرنا شروع کیا تب سے لے کر اب تک یہ سال سب سے زیادہ ہنگامہ خیز رہا ہے۔
شام میں صدر بشارالاسد کی اچانک معزولی، شمالی کوریا کے فوجیوں کا روس کے لیے جنگ لڑنا، یوکرین کا برطانیہ اور امریکہ کی جانب سے بھیجے گئے میزائلوں سے روس پر حملہ، روس کو ایرانی میزائلوں کی فراہمی، امریکی اسلحے سے مسلح اسرائیل کے غزہ اور لبنان پر فضائی حملے، یمن سے اسرائیل پر میزائلوں کا داغا جانا۔
تنازعات کا ایک جال دکھائی دیتا ہے جس میں سب پھنسے نظر آتے ہیں: اس ساری صورتحال کے پیشِ نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں جاری تنازعات اور جنگیں پہلے کے مقابلے میں اب زیادہ آپس میں منسلک ہیں۔
روس اور یوکرین کی جنگ
مشرق وسطیٰ: شطرنج کی بکھری ہوئی بساط
شام: ایک نئے نظام کے تحت
غزہ: ایک نہ ختم ہونے والی جنگ
ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروہ
افریقہ: روس کا نیا گڑھ؟
شمالی کوریا اور روس کی بڑھتی دوستی
تائیوان اور چین کا تنازع
ایسی قیاس آرائیاں پائی جاتی ہیں کہ شاید نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنائیں
امکان اس بات کا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ یوکرین میں امن معاہدہ کروانے کی کوشش کرے گی۔ اور ممکن ہے کہ پہلی ہی کوشش ناکام ہو جائے۔ پوتن اپنی شرائط واضح کر چکے ہیں اور انھیں ماننے کا مطلب یوکرین کو روس کے ہاتھ سونپنا ہو گا اور یہ بات یوکرین کو کسی صورت قبول نہیں۔
لیکن اگر ٹرمپ نے امریکی امداد روک دی تو یورپ کے لیے اکیلے اس جنگ کو سہارا دینا ناممکن ہو گا اور نتیجے میں یوکرین کمزور ہو جائے گا۔ شاید سب سے کم تکلیف دہ راستہ جنگ بندی کا ہو لیکن یوکرین روس اور پوتن پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ہے۔
مشرق وسطی کا معاملہ زیادہ غیر واضح ہے۔ ایران اور اسرائیل ایک دوسرے کے خلاف ہیں لیکن تہران کو اپنی کمزوری کا احساس بھی ہے اور خطے میں اسرائیل کے جارحانہ رویے کا بھی۔ اس وقت یہ چہ مگوئی جاری ہے کہ ٹرمپ، جنھوں نے دو ہزار بیس میں قدس فورس کے کمانڈر کے قتل کی اجازت دی تھی، اسرائیل کے ساتھ مل کر ایرانی جوہری پروگرام پر حملہ کر سکتے ہیں۔
شام میں بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔