ترجمان سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلےکی غلط رپورٹنگ سےکئی غلط فہمیاں پیداکی جارہی ہیں غلط تاثر دیا گیا جیسے سپریم کورٹ نےدوسری آئینی ترمیم “مسلمان” کی تعریف سے انحراف کیا یہ غلط تاثر دیا جا رہا ہے کہ مذہب کے خلاف جرائم سے متعلق دفعات ختم کرنے کیلئےکہا گیا۔
سپریم کورٹ اعلامیہ کے مطابق حالیہ کیس میں سپریم کورٹ نے کہا الزامات کو درست تسلیم کیا جائےتو بھی دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا سپریم کورٹ نے کہا تھا فوجداری ترمیمی ایکٹ 1932کی دفعہ 5 کا اطلاق ہوتا ہے دفعات کے تحت ممنوعہ کتب کی نشر و اشاعت پر زیادہ سے زیادہ 6 ماہ کی قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔
اعلامیہ میں واضح کیا گیا کہ ملزم پہلے ہی قید میں ایک سال سے زائد کا عرصہ گزار چکا تھا، اسلامی احکام، آئینی دفعات ،قانون کے مطابق ملزم کی ضمانت پر رہائی کا حکم دیا، افسوس ہے ایسے مقدمات میں جذبات مشتعل ، اسلامی احکام بھلا دیے جاتے ہیں فیصلے میں قرآن مجید کی آیات اسی سیاق و سباق میں دی گئی ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ آئین میں ہے ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی ،عمل کرنے اور بیان کرنے کا حق ہوگا آئین کے مطابق ہر مذہبی گروہ اور فرقے کو مذہبی ادارے قائم ،ان کے انتظام کا حق ہوگا اسی نوعیت کے ایک مقدمے میں سپریم کورٹ کا 5رکنی بینچ پہلے ہی تفصیلی فیصلہ دے چکا ہے اگر کوئی سمجھتا ہے عدالتی فیصلے میں کوئی غلطی ہےتو اسکی تصحیح و اصلاح اہل علم کی ذمہ داری ہے۔
اعلامیہ کے مطابق عدالتی فیصلے پر نظرثانی کےلیے آئینی اور قانونی راستے موجود ہیں چیف جسٹس اورسپریم کورٹ نے کسی کونظرثانی سےنہ پہلےروکا نہ اب روکیں گے عدالتی فیصلوں پر مناسب اسلوب میں تنقید بھی کی جاسکتی ہے آئینی راستے کے برعکس عدلیہ یا ججز کیخلاف منظم مہم افسوسناک ہے یہ آئین میں مذکور اظہاررائے کی آزادی کےحق کی حدودکی خلاف ورزی بھی ہے۔