سری نگر:انٹرنیشنل میڈیا رپورٹس کے مطابقمقبوضہ کشمیر کے بیشتر سیاسی رہنماؤں نے ورلڈ کپ کے فائنل میچ کے بعد آسٹریلوی ٹیم کی حمایت اورمبینہ طور پر پاکستان کے حق میں نعرے لگانے پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے سخت ترین قانون (یو اے پی اے) کے تحت سات کشمیری طلبہ کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کی کارروائی کودہشت ،بے چین اور حیران کرنے والا واقعہ قرار دیا ہے۔واضح رہے کہ کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میچ میں آسٹریلیا نے بھارت کو شکست دی تھی، جس کے بعد کشمیری طلبہ پر جشن منانے اور پاکستان کے حق میں نعرے بازی کرنے کا الزام عائد کیا گیا اور اسی الزام کے تحت معروف ایگری کلچر یونیورسٹی کے سات کشمیری طلبہ کو گرفتار کر لیا گیا اور کچھ طلبا روپوش ہو گئے جن کو تلاش کیا جا رہا ہے۔

گرفتاری کا یہ واقعات20 نومبرسے جاری ہیں اورمقبوضہ کشمیر میں یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ہے۔ تاہم جب اس بات کا انکشاف ہوا کہ ان طلبہ کے خلاف یو اے پی اے جیسے اس سخت ترین قانون کا نفاذ کیا گیا ہے، جو عموماً انسداد دہشت گردی یا دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے ہوتا ہے، تو اس پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ اس قانون کے تحت گرفتار شدہ افراد کو بغیر مقدمہ چلائے ہی برسوں جیل میں رکھا جاسکتا ہے اور اس کے تحت بیشتر کشمیری رہنما، کارکن، صحافی یا پھر طلبہ جیلوں میں ہیں۔

لیکن مقبوضہ کشمیر کی انتظامیہ نے اس کا دفاع کیا۔ پولیس نے کہا کہ یہ اختلاف رائے کا مسئلہ نہیں بلکہ کچھ لوگوں نے ان کیخلاف شکایت جس کی بنیاد پر یہ کارروائی عمل میں لائی گئی۔پولیس کے مطابق یونیورسٹی آف ایگریکلچرل سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک طالب علم نے شکایت درج کرائی تھی کہ سات کشمیریوں نے میچ کے بعد پاکستان کے حق میں نعرے لگائے اور انہیں مارنے کی دھمکی بھی دی۔پولیس نے کہا، ”شکایت کنندہ نے یہ بھی الزام لگایا کہ پاکستان کے حق میں نعروں نے جموں و کشمیر کے علاوہ دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء میں بھی خوف پیدا کیا۔پولیس نے مزید کہا،کہیہ غیر معمولی اور جعلی چیزیں زیادہ تر علیحدگی پسندوں اور عسکریت پسند نیٹ ورکس کی پشت پناہی میں چلائی جاتی ہیں۔

بھارت کی بعض دیگر ریاستوں اور شہروں میں پہلے بھی پولیس نے پاکستان کے حق میں نعرے لگانے، پاکستانی کھلاڑیوں کی تعریف کرنے اور بھارت مخالف سرگرمی میں ملوث ہونے جیسے الزامات کے تحت کئی بار کشمیری طلبہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »